Dewan - e - Hazrat Ali
By: Saeed Ahmed Azam
-
Rs 500.00
Due to constant currency fluctuation, prices are subject to change with or without notice.
ظہور اسلام سے قبل عربوں کی قربان دانی کا ہر شو چیر دیا تھا اور شور عربوں کو بھی اپنی
حت و بلاغت پر ناز تھا۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے موضوعات شن سی اور عامیانه
عربوں کی اخلاقی زبوں حالی طرز معاشرت اور سابی رجحانات اس عامیانہ پن کے
کے اسباب تھے۔ قرآن اگر صوری اعتبار سے حسن کلام کا نادر نمونہ دکھائی دیتا ہے تو اس کی
صرف یہ ہے کہ اس کے مخاطب فصائے عرب تھے۔
ظہور اسلام کے ساتھ ہی جہاں عربوں میں اور بہت سی تبدیلیاں آئیں وہاں ان
کے ادبی رجحانات کے لیے بھی سمت کا تعین ہو گیا۔ وہ لوگ جو ہمیشہ عورتوں کی تعریف و
صیف میں رطب اللسان رہتے تھے خدا اور اس کے رسول کا ذکر کرنے والے بن گئے
پانی افعال کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے والے برائیوں کی مذمت کرنے والے بن گئے۔
انتشار کو قرآن نے ان الفائل میں بیان کیا ہے۔
اور شعراء کی جماعت اسی ہوتی ہے کہ ان کے پیچھے چلنے والے گراه
ہوتے ہیں (اے مخاطب کیا تیری سمجھ میں اب تک نہیں آیا کہ
وہ (شعراء) تو ہر وادی میں بے مقصود کے پھرتے ہیں اور وہ ایک
باتیں کہتے ہیں جو کرتے ہیں ۔ سوائے (شاعروں میں سے) مومنوں
اور نیک عمل کرنے والوں کے اور ان کے جو اللہ کا اپنے شعروں
میں کثرت سے ذکر کرتے ہیں اور اگر ہجو کرتے ہیں تو ابتدا نہیں
کرتے بلکہ مظلوم ہونے کے بعد (جائز) بدلہ لیتے ہیں اور وہ لوگ
جو کہ ظالم ہیں ضرور جان لیں گے کہ کس مقام کی طرف ان کو لوٹ کر
جانا ہوگا۔“ (الشعراء 224 - 227)
ظہور اسلام سے قبل عربوں کی قربان دانی کا ہر شو چیر دیا تھا اور شور عربوں کو بھی اپنی
حت و بلاغت پر ناز تھا۔ یہ اور بات ہے کہ ان کے موضوعات شن سی اور عامیانه
عربوں کی اخلاقی زبوں حالی طرز معاشرت اور سابی رجحانات اس عامیانہ پن کے
کے اسباب تھے۔ قرآن اگر صوری اعتبار سے حسن کلام کا نادر نمونہ دکھائی دیتا ہے تو اس کی
صرف یہ ہے کہ اس کے مخاطب فصائے عرب تھے۔
ظہور اسلام کے ساتھ ہی جہاں عربوں میں اور بہت سی تبدیلیاں آئیں وہاں ان
کے ادبی رجحانات کے لیے بھی سمت کا تعین ہو گیا۔ وہ لوگ جو ہمیشہ عورتوں کی تعریف و
صیف میں رطب اللسان رہتے تھے خدا اور اس کے رسول کا ذکر کرنے والے بن گئے
پانی افعال کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے والے برائیوں کی مذمت کرنے والے بن گئے۔
انتشار کو قرآن نے ان الفائل میں بیان کیا ہے۔
اور شعراء کی جماعت اسی ہوتی ہے کہ ان کے پیچھے چلنے والے گراه
ہوتے ہیں (اے مخاطب کیا تیری سمجھ میں اب تک نہیں آیا کہ
وہ (شعراء) تو ہر وادی میں بے مقصود کے پھرتے ہیں اور وہ ایک
باتیں کہتے ہیں جو کرتے ہیں ۔ سوائے (شاعروں میں سے) مومنوں
اور نیک عمل کرنے والوں کے اور ان کے جو اللہ کا اپنے شعروں
میں کثرت سے ذکر کرتے ہیں اور اگر ہجو کرتے ہیں تو ابتدا نہیں
کرتے بلکہ مظلوم ہونے کے بعد (جائز) بدلہ لیتے ہیں اور وہ لوگ
جو کہ ظالم ہیں ضرور جان لیں گے کہ کس مقام کی طرف ان کو لوٹ کر
جانا ہوگا۔“ (الشعراء 224 - 227)