Processing Order Please Wait

Once the process is finished,
you will be automatically
redirected to the order confirmation page.

FREE SHIPPING on all orders of PKR 4000 and above

Use Promo Code: FS4K

cart-icon

Jang Aur Aman

Jang Aur Aman

Jang Aur Aman

By: Leo Tolstoy


Publication Date:
Jan, 01 2015
Binding:
Hard Back
Availability :
Out of Stock
  • Rs 2,000.00

  • Ex Tax :Rs 2,000.00
  • Price in loyalty points :1900

Due to constant currency fluctuation, prices are subject to change with or without notice.

Read More Details
جنگ اور امن تاریخ انسانی کا عظیم ترین ناول
اس ناول کے تقریباً 580 کردار ہیں۔ تاریخی پس منظر میں لکھے گئے اس ناول کا کینوس اتنا پھیلا ہوا ہے کہ اس کی Out line بنانا بے حد مشکل کام ہے۔ اس ناول کے مرکزی ایکشن 1805-1812ء کے درمیان رونما ہوتا ہے۔ ناول کا لکھا ہوا ابتدائیہ قاری کو 1820ء تک لے جاتا ہے۔ ناول کا پس منظر نپولین بونا پارٹ اور روسیوں کے تعلقات اور جنگ کے اردگرد گھومتا ہے۔ نپولین نے 1805-7ء آسٹریا پر قبضہ کر لیا تھا۔ روس نے ایک خفیہ معاہدے کے تحت نپولین سے مل کر انگریزوں سے جنگ مقصود تھی۔ یہ معاہدہ نا کام ہو گیا۔
1812ء میں نپولین نے روس پر حملہ کر دیا اور 14 ستمبر کو ماسکو پر قبضہ کر لیا۔ روسیوں نے امن معاہدہ کرنے سے انکار کر دیا اور اپنی فوجوں کو پسپا کر لیا اور نپولین کی فوجوں کو موسم کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اکتوبر میں نپولین پیچھے کی طرف مڑا اور روسی فوج نے اس کا پیچھا کیا نپولین کے فوجی برفیلے موسم کی نذر ہو گئے اور وہ روسی علاقہ چھوڑ کر چلے گئے۔ ٹالسٹائی کے کچھ کردار حقیقی ہیں اور تاریخ کی صداقت ان کی تصدیق کرتی ہے جن میں نپولین بونا پارٹ نیسپلز کا بادشاہ Murat زار کا مشیر کاونٹ سپرنسکی اور کئی دوسرے کردار باقی سارے کردار فرضی ہیں جن میں کاؤنٹ کا صرامی بیٹا پیئر (Pierre) نتاشا اسٹو۔ نیکولس کی بین نتالے۔ سونیا۔ نیکولس برلکنسکی اور اس کا بیٹا اینڈریو ’’جنگ اور امن‘‘ کو دنیا کا سب سے بڑا ناول قرار دیا جاتا ہے۔ ٹالسٹائی اس ناول میں تاریخی صداقت کو بیان کرنا چاہتا ہے جنگ اور امن کی جلد نمبرix میں اس نے تاریخ کے بارے میں اپنے نظریات بیان کئے ہیں اور حکمرانوں اور جرنیلوں کے بارے میں اعلان کیا ہے کہ یہ سب تاری کے غلام ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ یہ ناول دراصل مؤرخیس کے نظریہ تاریخ کی اصلاح کے لئے لکھا ہے۔ ٹالسٹائی نے اس ناول کے بار ے میں خود کہا ہے: ’’میں آج کل کے یورپ کی تاریخ لکھنا چاہتا تھا۔ میری زندگی کا شاید یہی مقصد تھا‘‘ یہ بات ٹالسٹائی نے 20 سال کی عمر میں لکھی تھی جب وہ 30 اور 35 کے درمیان پہنچا تو ’’جنگ اور امن‘‘ مکمل ہو چکی تھی۔ ٹالسٹائی نے اس ناول میں تاریخی اور فرضی مسائل کو بے نقاب کیا ہے وہ ایک حقیقت پسند مصنف تھا۔ انسانوں کے بارے میں اس کا نظریہ تھا کہ وہ باکل بُرے ہیں اور نہ باکل اچھے۔ انسانوں کے بارے میں اس کا نظریہ بڑا یقینی تھا اور اس کے تحت اس نے اپنے کردار تشکیل دئیے ہیں۔ ’’جنگ اور امن‘‘ بلاشبہ دنیا کا سب سے بڑا ناول مانا جاتا ہے تاریخی پس منظر میں لکھا ہوا یہ ناول اپنے بیان، مواد، واقعات، منظر کشی، مکالماتی فضا، کرداروں کی داخلی اور خارجی کیفیات ان کی نفسیاتی کشمکش، خود کلامی کی بنا پر بڑا ناول کہلاتا ہے۔
ڈبلیو سمرسٹ ماہم کی رائے میں یہ بڑا ناول ایک ایسا آدمی ہی لکھ سکتا تھا جو اعلیٰ ذہن اور مضبوط قوت تخیل رکھتا ہو جس کا تجربہ وسیع ہو جو انسانوں کے اندر جھانکنے کا ہنر جانتا ہو جسے تاریخ کا شعور ہو اور کرداروں کی تشکیل پر عبور رکھتا ہو اور یہ سب کچھ ٹالسٹائی میں موجود تھا۔ ’’جنگ اور امن‘‘ خاندان سے نپولین کے فوجی ہیڈ کوارٹر پہنچنے کی کہانی ہے۔ یہ 19 ویں صدی کے یورپ کے سیاسی اور معاشی انتشار کی کہانی ہے جسے ٹالسٹائی نے نہایت خوبصورتی سے ناول کے فریم ورک میں پیش کیا ہے’’جنگ اور امن‘‘ کے نقادوں نے نثر میں لکھی رزمیہ EPIC قرار دیا ہے۔ ’’بچپن، لڑکپن اور جوانی‘‘ ایک امیر باپ کے بیٹے کے تینوں زمانوں کی روداد ہے۔ جس میں ان کسانوں کی زندگی پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جن میں اس نے زندگی گزاری۔
(The Cossacks) ناول ایک امیر زادے کا ایک Cossack عورت سے عشق کا قصہ ہے۔
اپنے دوسرے بڑے ناول اینا کرینینا میں ایک عورت کی زندگی کی عکاسی کے ساتھ ساتھ ٹالسٹائی نے ایک زمیندار کے روپ میں اپنے کردار کو بھی روشناس کرایا ہے جو کسانوں کے ساتھ کھیتوں میں بھی کام کرتا ہے اور کسانوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے منصوبے بھی سوچتا ہے۔ اس نے کہا کہ خدا کو ڈھونڈنے کے لئے چرچ جانے کی ضرورت نہیں۔ اپنے پڑوسی سے اچھا سلوک کرو۔ انسانیت کی خدمت کرو اور خدا کو اپنے اندر تلاش کرو۔ اس کی سلطنت تمہارے دل میں ہے۔ 1908ء میں ٹالسٹائی نے ہندوستان کے اخبار میں ایک خط چھپنے کے لئے بھیجا جس کا عنوان تھا “A Letter to a Hindu” جس میں اس نے عدم تشدد پر اظہار خیال کیا تھا۔
اس کے اس نظریے سے ایک آدمی نے بہت اثر قبول کیا۔ اس کا نام تھا ’’موہن داس گاندھی‘‘۔ گاندھی اس وقت ساؤتھ افریقہ میں اپنی تحریک چلا رہا تھا۔ اس نے ٹالسٹائی سے اتفاق کیا۔ خط و کتابت جاری رکھی۔ اور ٹالسٹائی کو ’’عیسیٰ کا آخری حواری‘‘ کا نام دیا۔ وہ ٹالسٹائی سے اتنا متاثر تھا کہ ساؤتھ افریقہ میں قائم اپنے آشرم کا نام ’’ٹالسٹائی کالونی‘‘ رکھ دیا۔